نئی دہلی، 22/اکتوبر (ایس او نیوز /ایجنسی)جمعیۃ علماء ہند کی قانونی جدوجہد میں پیر کے روز ایک اور بڑی کامیابی ملی جب چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں جسٹس جے پی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے مختلف ریاستوں، خاص طور پر اتر پردیش حکومت کی جانب سے مدارس کو جاری کیے گئے تمام نوٹسوں پر روک لگا دی۔ عدالت نے حکم دیا کہ جب تک کوئی نیا عدالتی حکم جاری نہیں ہوتا، مرکزی حکومت اس سلسلے میں کوئی نوٹس یا حکم جاری نہ کرے۔ ساتھ ہی، صوبوں کو چار ہفتوں کے اندر اپنا موقف پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے نیشنل کمیشن فار چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کی اُس سفارش پر بھی روک لگا دی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ حق تعلیم ایکٹ (آر ٹی ای) کے مطابق نہ آنے والے تمام مدارس کو بند کیا جائے۔
غور طلب ہے کہ اس معاملے میں بچوں کے حقوق سے متعلق این سی پی سی آر نے عدالت میں ایک حلف نامہ بھی داخل کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مدارس میں بچوں کو مناسب تعلیم نہیں دی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ مدارس کا طریقہ کار بچوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ کمیشن نے کہا تھا کہ مدارس میں بچوں کو نہ صرف مناسب تعلیم بلکہ صحت مند ماحول اور ان کو بہتر غذائیت سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔
اتر پردیش میں مدارس کو جاری کیے گئے نوٹس میں حقائق کو پوری طرح نظر انداز کرتے ہوئے یہ دلیل دی گئی تھی کہ بچوں کے لئے مفت اور لازمی تعلیم ایکٹ 2009 کے تحت اگر مدرسہ غیر تسلیم شدہ ہے تو اسے بند کر دیا جانا چاہیے اور طلباء کو دوسری جگہ منتقل کر دیا جانا چاہئے۔ اس درمیان مدرسوں کے خلاف کاروائی شروع کی گئی، یہاں تک کہ بہت سے مدارس کو جبراً بند کر دیا گیا۔ اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے مولانا ارشد مدنی کے حکم پر جمعیۃ علماء ہند نے 4 اکتوبر 2024 کو W.P.(C) نمبر، 000660/2024 والی ایک اہم درخواست عدالت میں دائر کی۔ اس میں ان تمام دعووں کو چیلنج کیا گیا تھا جو مدارس کے خلاف کیے گئے تھے۔ اس کیس میں وکیل آن ریکارڈ فضیل ایوبی ہیں جبکہ سینئر وکیل اندراجئے سنگھ مقدمہ کی پیروی کر رہی ہیں۔ اس عرضی پر عدالت نے متعلقہ فریقین سے وضاحت طلب کی تھی اور پیر کو چیف جسٹس کی صدارت میں سپریم کورٹ نے ایک واضح ہدایت سبھی کو جاری کی ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ حتمی فیصلہ بھی مدارس کے حق میں ہی آئے گا اور آئین کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والی قوتوں کو مایوسی ہوگی۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملک کے اقلیتوں کو آئین میں جو خصوصی حقوق دیئے گئے تھے، انہیں اب چھیننے کی سازش رچی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 30(1) کے تحت تمام اقلیتی تعلیمی اداروں کو ضمیر کی آزادی کا حق دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 25 اور آرٹیکل 26 کے تحت اقلیتوں کو ان کے مذہبی تعلیمی اداروں کا انتظام اور کنٹرول کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔
مولانا مدنی نے 2014 میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ تعلیم کا حق ایکٹ 2009 اقلیتوں کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں پر نافذ نہیں ہوگا۔ سازش کا انکشاف کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ جو لوگ مدارس کے خلاف یہ سب کر رہے ہیں وہ مدارس کے ماحول اور کردار سے بے خبر ہیں۔ ایسا قانون کی دفعہ 1(5) میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ کی کوئی بھی شق مدرسوں، پاٹھ شالاؤں اور ایسے دیگر تعلیمی اداروں پر نافذ نہیں ہیں۔ مولانا مدنی کا کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ طاقتیں تاریخ سے بھی ناواقف ہیں۔ یہ مدارس ہی ہیں، جب پوری ملک سو رہی تھی تب ملک کو غلامی سے آزاد کرانے کے لئے صدا بلند کی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ سازش کرنے والوں کو شکست دینے اور آئین کو بچانے کے لیے ہی ہم نے سپریم کورٹ کا رخ کیا، کیونکہ اگر یہ سازش کامیاب ہو گئی تو آئین ختم ہو جائے گا، اس کی حیثیت بے معنی کتاب کی طرح رہ جائے گی۔
مولانا مدنی کا کہنا ہے کہ ہم فرقہ پرست طاقتوں کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ اسلامی مدارس ملک کے آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا کام کر رہے ہیں۔ ان مدارس کی وجہ سے ملک میں اسلام کی ترقی ہو رہی ہے اور اسلام کا صحیح پیغام بھی پہنچ رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مدارس کے متعلق فرقہ وارانہ ذہنیت کی پالیسی مسلمانوں کے لیے تمام طرح کے مسائل کی وجہ بن رہی ہے، جمعیۃ علماء اپنے آئینی اور قانونی حق کا استعمال کرتے ہوئے عدالت گئی اور اس کا بہتر نتیجہ سامنے آیا۔ اخیر میں مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ ہم ملک کے آئین کی حفاظت کے لیے لڑ رہے ہیں، اس لئے کہ آئین بچے گا تبھی ملک بچے گا۔ اپنے اس نظریہ کی تکمیل کے لئے جمعیۃ علماء ہند آئندہ 3 نومبر کو نئی دہلی میں ایک بڑی تقریب ’آئین بچاؤ کانفرنس‘ کے نام سے منعقد کرے گی۔